Mahmood Asghar

Choudhary

یوم شہادت علی کرم اللہ وجہہ ..... یکم اپریل 2024
Download Urdu Fonts
کچھ نام اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ زبان پر آتے ہی حلاوت محسوس ہوتی ہے جیسا کہ علی رض ۔ بچپن میں ہمارے گاؤں میں بہت سے پیشہ ورگداگر آتے تھے جودروازے پر صدا لگاتے اور آٹے کی ایک پلیٹ لیکر روانہ ہوجاتے ۔ ان دنوں روپے دینے کا رواج نہیں تھا۔ لیکن ایک ملنگ ایسا بھی آتا تھا جو ہمیں آج تک یاد ہے ۔ ا سکا انداز سب سے جدا تھا ۔ گورا سفید کشمیری ، لمبا قد، سفید داڑھی ،سر پر ٹوپی کی طرز کا باندھا ہواصافہ اور صاف ستھراسبز رنگ کا چولہ پہنے وہ ایک مسحور کن شخصیت تھا ۔ وہ دستک دینے کے بعد زور سے علی کی آواز لگاتا اور بری امام کے عرس کے نام پر خیرات مانگتا ۔ اگر تو اسے کوئی آٹا دیتا تو وہ اپنی جھولی میں ڈال کر چلا جاتا لیکن اگر اسے کوئی روپے دیتا تو وہ کچھ دیر کھڑا رہتا اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا۔ عجیب وغریب آوازوں سے کچھ دیر بری امام کو ایصال ثواب کرتا اور آخر میں وہ اتنی زور سے علی کہتا کہ دل جھوم اٹھتا ۔ وہ علی اتنے پیار اور اتنے انوکھے انداز سے کہتا ہے کہ ہمیں بہت مزہ آتا اس لئے جب وہ خیرات مانگنے آتا تو ہم گھر والوں سے کہتے کہ اسے آٹا نہیں دینا بلکہ روپے دینے ہیں تاکہ یہ دعا کرے ۔ اصل میں ہمیں دعا سے زیادہ اس لفظ علی سننے کی خواہش ہوتی کیونکہ وہ علی اتنے پیارے انداز سے کہتا کہ سیدھا دل پر اثر کرتا۔ ہم اس کے پبلسٹی کرنے اس کے ساتھ کچھ گھروں تک بھی جاتے اور سب کو کہتے کہ اسے آٹانہ دیں بلکہ روپے دیں تاکہ یہ آپ کے لئے دعا کرے ۔ اور ہم اس انتظار میں ہوتے کہ کب وہ دعا ختم کرے اور علی کہے ۔
ویسے علی کے نام کا بہترین تذکرہ اہل تشیع کی محفل میں ملتا ہے ۔ اہل تشیع کی محفل میں جو دوسری اہم بات قابل توجہ ہے کہ وہ ہر مقرر ، یا ذاکر کو اتنی زیادہ داد دیتے ہیں کہ مقرر کا دل باغ باغ ہوتا رہتا ہے ۔ مجھے خو د شیعوں کی ایک محفل میں تقریر کا موقع ملا ہے ۔ اہل بیت سے ان کی اتنی محبت ہے کہ ایک ایک لائین پر ایک ایک شعر پر وہ کمال کی داد دیتے ہیں ۔ ایسی ہی ایک مجلس میں کچھ صحافیوں کے ساتھ مجھے جانے کا موقع ملا ۔ تو مجلس میں سب کے لباس سیاہ رنگ کے تھے صرف میں ہی سب میں عجیب لگ رہا تھا ۔ کیونکہ میں نے ڈریس کوڈ کا خیا ل نہیں رکھاتھا ۔ خیر مجلس شروع ہوئی،مقرر نے تقریر شروع کی تو اس کےہر جملے پر نعروں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ۔ نعرہ حیدری کے بعد وہاں بھی کچھ لوگ اتنے ہی پیار سے علی کا نعرہ لگاتے کی میں فوراً اپنے بچپن میں پہنچ گیا اور اس سبز چولے والے ملنگ کی یاد تازہ ہوگئی ۔لیکن میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص کو بہت الجھن ہورہی تھی پہلے تو وہ آہستہ آہستہ سب کو کہہ رہا تھا کہ بس بھئی نعرے لگاؤ۔لیکن حاضرین باز نہ آئے تو وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا ۔ وہ بولا بس اب کوئی نعرہ نہ لگائے ، علامہ صاحب کو گفتگو کرنے دیں ۔ مجھے لگا کہ یہ شیعوں کی محفل میں کوئی لبرل آگیا ہے جو نعرے بھی نہیں لگانے دے رہا ۔ لیکن پھر میں نے غورکیا کہ اس کی بات سنی گئی یعنی وہ کوئی سرکردہ شخصیت تھا ۔ علامہ صاحب گفتگو کرتے حاضرین فضائل اہل بیت پر جھوم کر نعرہ لگانے کی کوشش ہی کرتے کہ وہ شخص اٹھ کر کھڑا ہوجاتا اور سختی سے نعرے والوں کو کہتا بس بھئی بس۔ خیر مجلس ختم ہوئی ۔تو میں نے ان محترم سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو نعرے کیوں نہیں لگانے دے رہے تھے ۔ وہ کہنے لگا کہ دیکھیں جی ان علامہ صاحب نے اس مجلس کے ہم سے پانچ سو ڈالر لینے ہیں ۔ یہ مجلس صرف آدھے گھنٹے کی ہے ۔ پانچ منٹ انہوں نے اپنی تقریر کی تمہید عربی میں کی ۔ اس کے بعد دس منٹ انہوں منقبت کے اشعار پڑھے ۔ باقی کتنے منٹ بچے میں نے کہا پندرہ ۔ وہ بولا اب اس پندرہ منٹ میں بھی ہم اگر دس منٹ نعروں پر لگا دیں تو فضائل اہل بیت ، فضائل علی رض کی بات سننے کا وقت کتنا بچامیں نے کہا پانچ منٹ ۔ تو وہ بولا آپ خود ہی بتائے یعنی علم و حکمت کی بات سننے کا ایک منٹ ہم ایک سو ڈالر میں پڑے گا ۔علی رض سے محبت کا بہترین ثبوت ان کے تعلیمات جاننے اور ان پر عمل کرنے کا نام ہے ۔ نعرے تو بعد میں بھی لگائے جا سکتے ہیں ۔ میں اس بندے کی تقسیم سے حیران ہوا ۔میں نے کہا آپ اکاؤنٹنٹ تو نہیں ہیں ؟ وہ بولا ہاں ٍ آپ کو کیسے پتہ چلا ۔
21رمضان المبارک حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یوم شہادت ہے ۔ اس رمضان ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو اپنے چوتھے خلیفہ راشد ، داماد رسول ﷺ، باب العلم ، فاتح خیبر، شیر خدا کا لقب پانے والے اور بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والی اس شخصیت کا حقیقی تعارف کرائیں ان کی تعلیمات سے روشناس کر ائیں وہ جن کے بارے میں نبی مکرم ﷺ نے فرمایا کہ علی سے صر ف مومن محبت کرے گا اور منافق کے سوا کوئی ان سے بغض نہیں رکھے گا (صحیح مسلم) جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے (ترمذی) ۔ حضرت علی رض کی ذات فصاحت و بلاغت ، امانت ودیانت ، زہد و تقوی ٰ، شجاعت و بہادری اور سخاوت و ریاضت کے اوصاف حمیدہ کا مجموعہ تھی ۔ آپ 21 رمضان کو شہید ہوئے آ پ نے جو وصیت کی اس میں اپنے بیٹوں کو فرمایا کہ جو بھی کہنا حق کے لئے کہنا۔اور ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔۔۔۔ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امور کو منظم رکھنا۔۔۔اورباہمی تعلقات کو سلجھائے رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ:آپس کی کشیدگیوں کومٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے۔۔۔۔اے عبدالمطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم، امیرالمو منین قتل ہوگئے، امیر المومنین قتل ہوگئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو۔دیکھو! میرے بدلے میں صرف میرا قاتل ہی قتل کیاجائے۔۔دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا، اور اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو۔
#محموداصغرچودھری



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN