Mahmood Asghar

Choudhary

نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ... 22 جنوری 2024
Download Urdu Fonts
نہ رہے بانس نہ بچے بانسری
پاکستان میں توہین مذہب کارڈ کااستعمال کبھی بھی پرانا نہیں ہوتا ۔ یہ ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے کسی کوبھی قتل ہونے یا اس کی زندگی عذاب بننے سےبچنے کے لئے کوئی علمی دلیل کوئی حوالہ کوئی فکری بحث کارگر ثا بت نہیں ہوسکتی ۔ قاضی فائز عیسیٰ کئی مہینوں سے کچھ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے نشانے پر تھے لیکن انہیں کوئی موقع نہیں مل رہا تھا لیکن اب قاضی صاحب کے خلاف سکور سیٹ کرنے کے لئےان کے ہاتھ ایک ترپ کا پتہ آچکا ہے ۔ ایک ایسا الزام جو کبھی فیل نہیں ہوا ۔ اس میں انتہا پسندوں کو ہمیشہ شرطیہ کامیابی ملتی ہے اور وہ ہے قاضی صاحب پر قادیانیت کی ترویج کا الزام ۔ قاضی صاحب نے کچھ دنوں پہلے ایک فیصلہ دیا ہے جو کہ انگریزی زبان میں تھا اس لئے کئی دن تک تو لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلا لیکن جب اب کچھ سیاق و سباق سے ہٹ کر ایک خبر چلی ہے تو سب کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا ہے ۔اب کچھ یوٹیوبرز جو پراپیگنڈہ کے ماسٹر ہے قاضی صاحب کے خلاف میدان عمل میں آچکے ہیں ۔ اور بہت جلدآپ پورے ملک کو اس آگ میں جھلستا دیکھیں گے ۔قاضی فائزعیسی کے قتل کے فتوے تو بعض ٹک ٹاک ویڈیوز میں نظر بھی آرہے ہیں ۔ اب انہیں اللہ ہی بچا سکتا ہے ۔
قاضی فائزعیسی ٰ نے جس مقدمے پر فیصلہ سنایا ہے ہے وہ فیصلہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اس میں نہ صرف آئین پاکستان اورقرآنی آیات کے حوالے ہیں بلکہ لاجک کے اعتبار سے بہت اچھی دلیلیں ہیں لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں قرآنی آیات کی تشریح بھی وہی چاہیے جو ہمارے مولانا صاحب بتائیں گے ۔ اور آئین کی بھی وہ تشریح چاہیے جو ہمارے یوٹیوبر دانشور بتائیں گے اور لاجک دلیل سے ہمارا دور دور تک ویسے بھی کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔
یہ کیس ہے ایک قادیانی مبارک احمد کے بارے میں ہے جس پر 2022ء میں ایک ایف آئی ار 2022ء میں درج ہوئی کہ وہ سن 2019 ء میں تفسیر صغیر نامی کتاب پھیلا رہا تھا .
1۔ کیس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اسے ترمیم قرآن قانون کے تحت سزا دی جائے ۔ پاکستان میں قرآن شریف ترمیم کا قانون 2021ء میں بنایا گیا ہے عدالت عالیہ نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ اس جرم پر سزا کیسے دے دیں جو اس وقت ہوا جب یہ قانون بنا ہی نہیں تھا ۔ یہ اصول پوری دنیا میں قانون کی کتابوں میں اسی طرح درج ہوتا ہے ۔ کسی بھی مجرم کو کسی قانون کے تحت اسی وقت سزا دی جاسکتی ہے جب وہ قانون بن جاتا ہے ماضی کے جرائم پرسزائیں لاگو نہیں کی جاتیں ۔بلکہ ہمارے مذہب اسلام کی قانون سازی کی ابتدا بھی ایسی ہی ہے اس پر شراب نوشی کی سزا کے قانون کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ ظاہری سی بات ہے کسی شخص پر سزا کا اطلاق اسی وقت ہوا ہوگا جب اس نے قانون بن جانے کے بعد جرم کیا ہوگا ۔
2۔ملزم پر توہین مذہب کے قانون کی اشقا ق کا مطالبہ کیا گیا ہے تو عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ نہ تو ایف آئی ار اور نہ ہی تفتیش کے دوران پولیس چالان میں ایسا کوئی الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے توہین مذہب کا ارتکاب کیا ہے تو اس کوسزا کیسے دے دیں ۔ اس سلسلے میں فیصلے میں قران آیت ۔دین میں کوئی جبر نہیں ہے ۔ سورۃ بقرہ آیت نمبر 256 کا حوالہ دیا گیا ہے اس کے علاوہ سورۃرعد اور سورۃ ہود کی آیات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے
3۔ سب سے اہم نقطہ جو دلیل کے اعتبار سے بھی بہترین ہےوہ یہ ہے کہ ملزم کے وکیل کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ تفسیرصغیر نامی کتاب جو 2019ء میں تقسیم کی گئی اس پر اس جرم میں سزا سنا بھی دی جائے تو وہ قانون کے مطابق زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کی سزا بنتی ہے ۔ جبکہ ملزم کو 7جنوری 2023ء کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ پہلے سے ہی قید میں ہے تو وہ چھ ما ہ سے ڈبل سزا یعنی تیرہ ماہ پہلے ہی گزار چکا ہے ۔
قاضی صاحب نے ملزم کے وکیل کے یہ دلائل تسلیم کر لئے ہیں لیکن کیا کریں کہ ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دینے والوں اور سیاسی و مذہبی انتشار کا ایجنڈا رکھنے والوں کو تب تک سکون نہیں مل سکتا جب تک ملک میں آگ و خون کا کھیل شروع نہ ہو او رپوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی نہ ہو ۔ پتہ نہیں ہم کیا چاہتے کہ مذہبی مقدما ت کو جج کو سننا ہی نہیں چاہیے یا پھر اگر کسی بھی ملزم پر توہین قرآن یا توہین مذہب کا کیس ہوجائے تو اسے ہر حال میں سزا سنا دینی چاہئے ۔ چاہے اس نے جرم کیا بھی نہ ہو ؟
دوسری جانب یہ قادیانی مسئلے سے بھی بہت سی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے روزی روٹی وابستہ ہے ۔ ہر دوسرے مہینے سوشل میڈیا پر پاکستان کے 24 کروڑ مسلمانوں کو اپنے ایمان کےسرٹیفکیٹ دکھانے کے لئے ایسی پوسٹیں لکھنی پڑتی ہیں جس میں بار بار یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں ۔ حد ہے ویسے جو بیان ہمارے ایمان کا حصہ ہے وہ ہمیں چند انتہا پسندوں کو خوش کر نے کے لئے باربار لکھنا پڑتا ہے ۔ لیکن ان انتہا پسندوں کی پھر بھی تسلی نہیں ہوتی ۔
میرے خیال میں اس کا سادا سا حل یہ ہے کہ ہم چوبیس کروڑ مسلمان ملکر ان پانچ لاکھ قادیانیوں کو ملک بدر کیوں نہ کروا دیں تاکہ اس مسئلہ پر سیاست کرنے والوں کو کوئی نیا موضوع ملے ۔ نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری ۔
اس ملک میں سوشل میڈیا پر ہر شخص پوسٹ لکھ رہا ہے کہ ہم ختم نبوت کی حفاظت کریں گے ۔حد ہے ویسے جس نبی رحمت للعالمین ﷺ پر اترنے والے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود اٹھائی ہے ( ہم نے اس ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں سورۃ حجر آیت نمبر 9 )۔ اس کی ختم نبوت کی حفاظت کی ذمہ داری وہ رب ذوالجلال ہم پر چھوڑدے گا ۔
توہین مذہب کے مسئلے کو سمجھنا ہے تو پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) سائبر کرائم ونگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمود الحسن کا بیان ذرا غور سے پڑھیں فرماتے ہیں کہ پاکستان میں اگر پورنو گرافی یومیہ بنیاد پر شیئر کرنے کے اعداد و شمار بتا دیے تو قوم کا سر شرم سے جھک جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ پورن ویب سائٹس دیکھنے والے افراد کو توہین رسالت پر مبنی مواد شیئر کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، پہلے فحاشی دیکھنے کا عادی بنایاجاتا اور بعد مزید فحاشی دکھانے کے لئے ان سے اپنی مرضی کے مطابق مواد شیئر کرایا جاتا ہے۔
خدا راہ ان مذہبی و سیاسی فسادیوں سے بچیں جو اس ملک کو آگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں ان کے تو سیاسی و مالی مفاد ہیں آپ تو دین کے معاملے میں عقل وشعور اور فہم و فراست کا مظاہرہ کریں اور ا س ملک کو مزید انتشار سے بچائیں ۔
#محموداصغرچودھری



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN