Mahmood Asghar

Choudhary

سیلاب، سیلفی اور سیاست ... 18 جولائی 2025
Download Urdu Fonts
لگتا ہے آنکھیں ڈھیٹ ہوگئی ہیں۔ دل پتھر ہوچکے ہیں ۔ احساس مرچکاہے ۔ ہمارے ضمیر جذبات سے عاری ہمارے جسم کی لاش اٹھائے پھر رہے ہیں ۔ ہم صرف سوشل میڈیا پر ویڈیوز دیکھ کر شیئر کرنے کے قابل رہ گئے ہیں ۔ ایک ویڈیو دیکھی ہے ۔ ایک پھل فروش کی کل کائنات اس کی ریڑھی بارشوں کے پانی میں بہہ رہی ہے وہ ہاتھوں سے اسے روکنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن پانی کا ریلا اتنی تیزہوچکا ہے کہ اس کے ناتواں کندھے اسے بچانے سے قاصر ہوجاتے ہیں ۔ریلا سب کچھ بہا لے جاتا ہے ۔ ہم ویڈیو دیکھتے ہیں ،افسوس لکھ کر آگے فارورڈ کردیتے ہیں اور سمجھتے ہیںبس ہماری ذمہ داری پوری ہوگئی ہے ۔لیکن اس دوران اس ریڑھی بان کے بچوں کی فیس، گھر کا کرایہ ، بجلی کابل اور دووقت کی روٹی کہاں سے آئے گی اس سے ہمار ا کوئی سروکار نہیں
ادھر ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ بگ ڈیٹا کو یہ تک پتہ ہے کہ ہمیں کون سی کافی پسند ہے کس فلم کا ٹریلر کب دیکھنا ہے اور کون سا یوٹیوبرہمیں گالیوں اور فحش گوئی سے محظوظ کر اسکتا ہے مگرکوئی الگورتھم ہمیں اس ریڑھی بان کے دل میں اٹھنے والی ہوک کا اندازہ نہیں دلا سکتا و ہ آنسو جو اس کے سینے میں بے آواز گر رہے ہیں ان کا کوئی ڈیٹا پوائنٹ موجود نہیں ہے
گھبرائیں نہیں حکومت متحرک ہے وزیر اعظم نے ہنگامی اجلاس بلا لیا ہے ۔ فوج امدادی کاروائیوں میں مصروف ہے وزیر اعلی ٰ نے رین ایمرجینسی نافذ کر دی ہے اور ۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے ملک بھر میں مزید بارشوں کا الرٹ جاری کر دیا ہے ۔ بس یوں سمجھئے ریاست نے اپنی ذمہ داری نبھا دی ہے ایسے میں اس ریڑھی بان کے گھر میں چولہا کیسے جلے گا ، ماں کی دواکہاں سے آئے گی ، کسی کو پرواہ نہیں ہے
ملک میں اب تو وزیر اعظم بھی وہی ہیں جن کی وجہ شہرت ہی بارشوں میں کھڑے ہوکر لمبے بوٹ پہننا بنی تھی بھلا کوئی سیاستدان اپنی وجہ شہرت کو زنگ کیسے لگنے دے گا ۔ اگر بارش کے پانیوں کا کوئی حل اس ملک میں نکل آیا توآئندہ کوئی سیاستدان کون سی تصویریں کھنچوا کر مشہور ہوگا ۔
پاکستان میں تجزیہ نگاروں سے لیکر دانشوروں تک ، صحافیوں سے لیکر عام طالبعلم تک ، سب کی کل دانش صرف سیاست ، گالی گلوچ، سرکاری عہدوں پر بیٹھی شخصیات یا عدالتی فیصلوں کے گرد گھومتی ہے ۔ کوئی ماحولیاتی تبدیلی پر بات کرے ، گلوبل وارمنگ کا ذکر چھیڑے۔ غذائی قلت سے لیکر ڈسزاسٹر مینجمنٹ پر بات کرنا چاہے تو لگتا ہے کہ جیسے کسی سنسکرت بولنا شروع کر دی ہے ۔ ماحولیاتی بم کی ٹک ٹک سب سن رہے ہیں مگر لگتا ہے سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس کے پھٹنے کے منتظر ہیں
اس دوران کسی پھل فروش کی ریڑھی بہہ گئی ، کسی کی بھینس بہہ گئی ، کسی کی فیکٹری ، کسی کا روزگار ، کسی کی چھت کسی کے خواب سب پانی کے نذر ہوگئے ۔ ہمارے لئے یہ بس ایک ٹک ٹاک کی دس سیکنڈ کی ویڈیو کے تماشے سے زیادہ نہیں ہیں
دنیامیں جن ممالک میں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہیں ۔ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں پہلے 100میں بھی نہیں آتا ۔ لیکن اگرنقصانات کا حساب لگایا جائے تو 1947سے لیکر اب تک 38تباہ کن سیلاب آچکے ہیں ۔ مون سون اب بس ایک موسم نہیںرہا ،شاعری کا استعار ہ یا فلموں کا نظارہ نہیں رہا بلکہ ایک سالانہ بحران بن چکا ہے ۔ ہر سال نئی لاشیں ، تباہ فصلیں ، بپھرے نالے ، گرتی عمارات اور ہمارے پاس بس پرانے بیانات کے علاوہ کوئی پالیسی نہیں ۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ پانی کے بحران کا عالم یہ ہے کہ ہم نے حال ہی میں ایک جنگ پانی پر لڑبھی لی ہے ۔ لیکن ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ نہ کوئی ڈیم بنانا ہے نہ آبی ذخائر، نہ نہروں کی صفائی کرنی ہے اورنہ ہی شہروں میں نکاسی آب کا کوئی نظام بہتر بنانا ہے ۔ ہم نے بس ہر درخت کو کاٹ کر ہاوسنگ سوسائٹیاں بنانی ہیں۔ کوئی اس ماحولیات کو موضوع بنائے تو اسے ایسے دیکھنا ہے جیسے وہ مریخ سے آیا ہے
دوسری جانب عوام کا حال یہ ہے کہ یہ مسائل نہ ان کے نصاب میں شامل ہیں نہ مطالبات میں ۔ نہ کسی تھڑے پر بیٹھ کر بات ہوتی ہے نہ کسی بیٹھک میں ۔ ہمارے گھر میں کام کرنے والی کسی خاتون کو یہ تک نہیں پتہ کہ اس نے جو پلاسٹک بیگ نالی میں پھینکا ہے وہ کسی کی چھت گرنے کسی بچے کے مرنے اور کسی ریڑھی کے بہنے کا سبب بن سکتا ہے ۔ وہ نوجوان بھی شریک جرم ہے جس نے چاکلیٹ کا ریپر ، یا کسی بچے کا پیپر تک جہاں چاہا پھینک دیا ۔ نہ کوڑے کی تفریق نہ بوتل، پلاسٹک ، کاغذ اور گردوغبار کی الگ الگ تقسیم کی تعلیم موجود ہے ۔ نہ کسی کو درخت لگانا ہے نہ پھول اگانا ہے البتہ گاڑ ی سب کو سایے میں کھڑی کرنا ہے
اب حل کیا ہے ؟ ممکنہ غیر مقبول فیصلوں پر حل کی نیت نہیں ہے تو میرے پاس کچھ آسان تجاویز ہے ۔ میری حکومت سے گذارش ہے کہ کچھ قومی مشترکہ اقدامات کئے جائیں ۔ ہر سال بارش سے پہلے حکومت قومی ایمرجینسی بوٹ لانچ کرئے اور اسے سال کا سب سے اہم فیشن قرار دے ۔ شہروں میں ریڑھی بانوں کو سیلابی سیلف ڈیفینس کی تربیت دے تاکہ وہ اپنے ٹھیلوں کو پانی میں بہنے سے بچا سکیں شہریوں کو تیراکی سکھائی جاکہ تاکہ وہ اپنے قیمتی سامان کو خود بچا سکیں ۔ نالیوں کی صفائی کو ٹک ٹاک چیلنج بنا دیا جائے ۔صفائی کرو ویڈیو بناو اور وائرل ہوجاو ۔ اور بس ہمیں یہ کرنا ہے کہ ہر سال اپنے ضمیر کو بارش سے پہلے بند کر دیں تاکہ وہ کہیں بھیگ نہ جائے
یہ کالم مکالمہ پر چھپ چکا ہے



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN