Mahmood Asghar
Choudhary
Home
Columns
Immigration Columns
Pictures
Contacts
Feedback
غیرت کے بت اور فن کی لاشیں.... 13 جولائی 2025
Download Urdu Fonts
یہ اٹلی کے ایک چھوٹے سے شہر میں ایک میئر آفس کا منظر تھا۔ ایک پاکستانی باپ زار و قطار رو رہا تھا۔ فریاد کر رہا تھا کہ بس ایک بار مجھے میری بیٹی سے ملا دو۔ سوشل سروسز نے اس کی بیٹی کو تحویل میں لے لیا تھا۔ بچی نے اپنی استانی کو صرف اتنا بتایا تھا کہ اس کے والدین اس کی شادی پاکستان میں اس کے کزن سے کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ راضی نہیں ہے،کیونکہ وہ اپنے سکول کے ایک پاکستانی لڑکے کو پسند کرتی ہے۔ بچی کا یہ انکار اس کے والدین کو برداشت نہ ہوا۔ انہوں نے دھوکے سے اسے پاکستان لے جانے کا منصوبہ بنایا۔ سکول انتظامیہ نے فوراً پولیس اور سوشل سروس کو اطلاع دی، اور بچی کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔ میئر آفس میں بیٹھا باپ ماتم کناں تھا کہ اگر لڑکی گھر نہ پہنچی تو کمیونٹی میں ان کی غیرت کا جنازہ نکل جائے گا۔ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے
میئر، جو میرا ذاتی دوست تھا، اس نے مجھے بلایا۔ کہنے لگا اس کے والد کو سمجھاؤ، میرے ہاتھ بندھے ہیں، میں اپنے اداروں کو مجبور نہیں کر سکتا۔ باپ کی حالت غیر دیکھ کر میں نے بھی درخواست کی کہ آپ ایک بار اس کی ملاقات کرا دیں۔ میں آپ کو ضمانت دیتا ہوں کہ وہ بچی کو پاکستان نہیں لے کر جائیں گے۔ اس نے بڑی توجہ سے میری بات سنی اورنرمی سے کہنے لگا کہ کیا تمہاری ضمانت قرآن سے بھی زیادہ اہم ہے؟میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ بولا اسی باپ نے تمہاری سب سے مقدس کتاب قرآن پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کیا تھا کہ بچی کو کہیں نہیں لے جائے گا، لیکن وہ اسی روز سیدھا میلان ایئرپورٹ پہنچ گیا تھا۔ شکر ہے ہماری پولیس نے نگرانی کی ہوئی تھی، ورنہ ہم سوشل سروسز پر سے عوام کا اعتماد کھو دیتے۔ اس کے بعد اس نے ایک اور جملہ کہا جو آج تک میرے دل سے نہیں اترا۔ ”تم لوگوں پر یہ الزام غلط ہے کہ تم خدا پرست ہو۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ تم اپنی کھوکھلی روایات کو ہر مذہب، ہر اصول سے مقدم رکھتے ہو“۔ وہ ایسا کہنے میں حق بجانب تھا، کیونکہ اٹلی میں یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اٹلی میں کئی پاکستانی لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل ہو چکی ہیں۔
ہماری ”غیرت“ کا بت روز بروز بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ اتنا بڑا کہ روزانہ اس کے سامنے انسانیت، رحم، عقل، حتیٰ کہ مذہب بھی قربان ہو رہا ہے۔ ہر روز اس بت کے قدموں میں کسی بیٹی کی خواہش، کسی بہن کی مرضی اور کسی لڑکی کی زندگی کا خون بہایا جا رہا ہے۔ قندیل بلوچ ہو، نور مقدم ہو، ثنا یوسف ہو یا اس ہفتے حمیرا اصغر کی موت کا واقعہ ہو۔ یہ ہمیں ہر روز یہ سوال کرنے آتا ہے کہ اس بت کی بھینٹ چڑھنے والی فہرست کہاں جا کر رُکے گی۔
حمیرا اصغر کی موت صرف ایک اداکارہ کی غربت کی کہانی نہیں ہے، بلکہ جس طرح گزشتہ دو سال سے اس کے گھر والوں نے اس سے ناتا توڑا ہوا تھا، اور جس طرح اس کی لاش کئی مہینوں سے ایک فلیٹ میں پڑی گل سڑ رہی تھی۔ یہ ایک جانب تو سماج کی بے حسی اور فن کے لئے بڑھتی ہوئی بے قدری کا نوحہ ہے تو دوسری جانب ایک بار پھر اسی غیرت کے بت کی پوجا کی بہترین مثال ہے۔
اداکارہ حمیرا اصغر کی موت پر معاشرے میں موجود غیرت بریگیڈ پھر ایک دفعہ اسی طرح متحرک ہو گئی ہے۔ جیسے وہ چند ہفتے پہلے ثنا یوسف کی موت پر سینہ پیٹ رہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر این سی اے جیسے ادارے سے آرٹ کی اعلی تعلیم حاصل کرنے والی حمیرا اصغر کو بھی اپنے خوابوں کو جینے کے لئے خاندان کی اجازت درکار ہے، تو ہم کیسے دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم آزاد قوم ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم غلامی پسند ہیں۔ کبھی ہم اپنی روایات کو پوجتے ہیں، کبھی اپنے قبیلے کے بت کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں، تو کبھی اس نام نہاد غیرت کا دیو ہیکل اژدھا ہمیں نگل جاتا ہے۔ ہم اپنی بیٹی کی تعریف یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ یہ ہمارا ہر حکم مانتی ہے۔ یہ جملہ ہی غلامی پسندی کی عملی تصویر ہے۔ ہمارے یہاں عورت کو تعلیم بھی اس لیے دلوائی جاتی ہے کہ اچھا رشتہ مل جائے۔ اس لئے نہیں کہ وہ کیریئر بنائے گی۔ کیریئر بنانے والیوں کا ہم ٹھٹھہ اڑاتے ہیں۔ حمیرا اصغر کی موت پر جس قسم کے تبصرے سننے کو ملے ہیں اور جس طرح ان لڑکیوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا یا جارہا ہے جو اپنا کیریئر بنانا چاہتی ہیں، وہ پورے معاشرے کی منافقت کو بے نقاب کر رہے ہیں یعنی اب حل ایک ہی ہے کہ معاشرے میں آرٹ، مصوری، اداکاری اور فنونِ لطیفہ کے لئے پاکستان میں مریخ سے لڑکیاں لائی جائیں، کیونکہ اداکاری دیکھنے کا شوق تو سب کو ہے، مگر کرنے والاان کی نظر میں جہنمی ہے
ایک آرٹسٹ کی بے رحم موت ایک معاشرے کی موت ہوتی ہے۔ ایک قوم جو اپنے فنکاروں، شاعروں، ادیبوں اور مصوروں کی قدر نہ کرے، وہ صرف روحانی نہیں،بلکہ اخلاقی اور تہذیبی طور پر بھی مر چکی ہوتی ہے۔ ہمار ا ملک بھی عجیب ہے جہاں ڈھونگیوں، جعلی پیروں اور شعبدہ بازوں کو تو ہاتھ کی صفائی کا موقع ملتا ہے اور وہ ہمارے ذہنوں کو ماؤف کرکے ارب پتی بن گئے ہیں، لیکن ہمارے فنکار، شاعر، ادیب۔ مصور دو وقت کی روٹی کے لئے ترستے ہیں۔
منافقت کی انتہا یہ ہے کہ اداکاری کو گناہ سمجھا جاتا ہے، مگر وہی اداکاری لاکھوں لوگ اپنے موبائل پر مزے سے دیکھتے ہیں۔ اگر اداکار گناہ گار ہے تو ناظر کی پاک دامنی کس کھاتے میں لکھی جائے؟ اگر اداکارہ کی زندگی حرام ہے، تو ہر رات اس کی ریلز دیکھنے والوں کا کیا انجام ہو گا؟ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟ہم میں اتنی اخلاقی جرأت بھی باقی نہیں رہی کہ ہم سچ کو سچ کہہ سکیں، فن کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔یہ حقیقت ہے کہ جب کسی قوم کے ہاں آرٹ، ادب اور فن مرنے لگے تو وہ قوم شعور سے خالی ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے جذبات کو بیان کرنا بھول جاتی ہے۔ وہ صرف جسمانی نہیں، روحانی طور پر بھی مر جاتی ہے۔
یہی سوال ہمیں اپنے آپ سے کرنا ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کے خواب مار دیں، فنکاروں کو فاقوں پر مجبور کر دیں اور اپنی بیٹیوں کی پسند کو غیرت کے نام پر قتل کر دیں؟تو ہم کس لئے زندہ ہیں۔ ہمیں غیرت جیسے خود ساختہ تصو کی تعریف بدلنی ہوگی اور اس کی جگہ عزت ووقار اور احترام آدمیت جیسی حسین روایات کو معاشرے کا حصہ بنانا ہوگا۔ جن باتوں کے اختیارات خدا کے پاس ہیں اس میں اسے مشورے دینے سے باز آنا ہوگا۔ کس کو جنت دینی ہے اور کس کو جہنم میں پہنچانا ہے اس معاملے میں ہماری رائے اس نے ہم سے پوچھنی نہیں ہے یہ اسی کا اختیار ہے۔ ہمیں اب فیصلہ کرنا ہو گا۔ہم خدا کے بندے بنیں گے یا غیرت کے خودساختہ بْتوں کے پجاری؟
یہ کالم ڈیلی پاکستان میںشائع ہوا.
Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام
Admin Login
LOGIN
MAIN MENU
کالمز
امیگریشن کالمز
تصاویر
رابطہ
تازہ ترین
فیڈ بیک
Mahmood Asghar Chaudhry
Crea il tuo badge
Mahmood Asghar Ch.